ترکی سے تعلق رکھنے والے نہیر عدن کے لیۓ یہ فیصلہ کرنا انتہاٸ شکل ہے کہ وہ اپنے پانچ سالہ بیٹے کو کینیڈا میں تنہا چھوڑ دیں ، اسے ریاست کا متبنیٰ بنا دیں ، یا اسے اپنے ساتھ ترکی لے جائیں ، جہاں وہ اور اس کے خاندان کو اپنے مذہبی عقائد کی وجہ سے ظلم و تشدد کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ عدن نے کہا۔ “وہ بہت چھوٹا ہے ، اسے تحفظ کی ضرورت ہے۔” عدن اور اس کے تین بچے اگست 2019 میں کینیڈا آئے تھے۔ انہوں نے پناہ کی درخواست دی تھی کیوں کہ انہیں خدشہ ہے کہ انھیں حزمت نامی ایک مذہبی تحریک سے تعلق کی بنا پہ کہ ترک حکام کی طرف سے گرفتار کیا جا سکتا ہے اور تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، جسے ترک صدر رجب طیب ایردوان نے کالعدم قرار دیا اور 2016 کی بغاوت کی کوشش کا الزام لگایا تھا۔ بیجنگ کے متنازع قومی سلامتی قانون اور مین لینڈ چین میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی کی وجہ سے اس خاندان کو ہانگ کانگ میں ظلم و ستم کا بھی خدشہ ہے جہاں وہ کینیڈا آنے سے پہلے رہتے تھے۔ امیگریشن اینڈ ریفیوجی بورڈ آف کینیڈا (IRB) کے ایک جج نے عدن اور اس کے دو بڑے بچوں کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے لیے ہانگ کانگ واپس آنا محفوظ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کینیڈا انہیں کسی بھی وقت ملک بدر کر سکتا ہے۔ لیکن عدن کے پانچ سالہ بیٹے کے دعوے کو آئی آر بی نے قبول کر لیا کیونکہ وہ ہانگ کانگ میں رہائش کے لیے بہت چھوٹا ہے اور اس لیے کہ اس کی واحد سفری دستاویز ، ختم شدہ ترک پاسپورٹ کی ترک حکام کی طرف سے تجدید نہیں کی جا سکتی جو معمول کے مطابق درخواستیں مسترد کرتے ہیں۔ “مجھے ڈر لگتا ہے ،” عدن نے کہا۔ ” چھوٹا بچہ تو رہ سکتا ہے ، لیکن میں اور میرے دوسرے دو بچے ، ہم نہیں رہ سکتے۔” جج نے عدن کے اس دعوے کو مسترد نہیں کیا کہ اگر وہ اور اس کے بچے ترکی واپس آئیں تو وہ خطرے میں ہیں۔
1980 کی دہائی میں بنائی گئی ایک حکومتی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ بچوں کے والدین کینیڈین امیگریشن قانون کی رو سے “خاندان کے افراد” نہیں ہیں۔ اس سے والدین جلاوطنی کا شکار ہو جاتے ہیں ، یہاں تک کہ ان کے بچوں کو پناہ گزینوں کے تحفظ کے بعد بھی۔ بالغوں کے برعکس ، جو اپنے شریک حیات ، پارٹنرز اور انحصار کرنے والے بچوں کو کینیڈا میں مستقل طور پر رہنے کے لیے درخواستوں میں شامل کر سکتے ہیں ، بچوں کو ان درخواستوں میں والدین کو شامل کرنے سے روک دیا جاتا ہے کیونکہ صرف “خاندان کے افراد” کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ حکومت نے کہا کہ یہ پالیسی بچوں کو انسانی اسمگلروں سے بچاتی ہے اور استحصال کو روکتی ہے اور والدین کو اپنے بچوں کو اکیلے کینیڈا بھیجنے کی حوصلہ شکنی کرتی ہے_ اس پالیسی کو وکلاء اور بچوں کے حقوق کے علمبرداروں نے “ظالمانہ” اور “غیر انسانی” بھی کہا ہے ، بشمول اقوام متحدہ کے سابق خصوصی مندوب خاندانی علیحدگی کے مترادف ہے۔ ٹورنٹو امیگریشن وکیل میرا بدووچ نے عدن اور اس کے دو بڑے بچوں کے لیے کینیڈا میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر درخواست دائر کی ہے۔
اگر یہ درخواست مسترد کردی گئی تو عدن کو اپنے بیٹے سے مستقل طور پر علیٰحدہ رہنے ، یا ترکی واپس جانے کے مشکل فیصلے کا سامنا کرنا پڑے گا ، جہاں پورا خاندان خطرے میں پڑے گا ،” بدووچ نے مارچ میں امیگریشن کینیڈا کو اپنے ایک خط میں لکھا۔ “دونوں اختیارات اس خاندان پر تباہ کن اثرات مرتب کریں گے۔” میک گل یونیورسٹی کے لاء پروفیسر اور تارکین وطن کے انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے سابق خصوصی رپورٹر فرانسوا کرپیو نے کہا۔ کریپو نے کہا کہ یہ “مضحکہ خیز” ہے کہ حکومت تحفظ کے نام پر پانچ سالہ لڑکے کی ماں کو ملک بدر کرنے پر بھی غور کرے گی۔

سالہ 5 بچّے کو کہاں چھوڑیں، ایک مشکل فیصلہ“۔
